ماہ محرم کی عظمت و حرمت فضائل و خصوصیات
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔
فَاَعُوذُ بِاللہِ السمیع العلیم مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ
اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰه اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰه یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فلَاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ"-
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: (( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰه الْمُحَرَّمُ،(رواہ مسلم)
محترم حضرات!ماہ ِ محرم نہایت ہی عظیم الشان اور مبارک مہینہ ہے، ماہ محرم اسلامی سن کا پہلا اور حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ان شاءاللہ اسی موضوع پر چند باتیں آپ حضرات کے سامنے رکھنا چاہیں گے،
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بار الہ ہم سب کیلئے ماہ محرم سمیت آنیوالے دیگر ماہ و سال کو امن و سلامتی والا بنائے اور ہم سب کو اس میں عمل صالح کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
برادران اسلام: ماہ محرم حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:{اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰه اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتَابِ اللّٰه یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآأَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فلَاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ}[التوبۃ9:36]
’’بے شک مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک لوح محفوظ میں بارہ ہے ، اور یہ اس دن سے ہے جب سے اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت وادب کے ہیں ، یہی مضبوط دین ہے ۔ لہٰذا تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘
یعنی ابتدائے آفرینش سے ہی(جب سے اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا م) اللہ تعالیٰ کے نزدیک سال کے مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ۔
حرمت والے چار مہینے کون سے ہیں ؟ اس کے بارے میں حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اَلسَّنَۃُ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا مِنْہَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ:ثَلاَثَۃٌ مُتَوَالِیَاتٌ:ذُوْالْقَعْدَۃِ، وَذُوْالْحَجَّۃِ، وَالْمُحَرَّمُ،وَرَجَبُ مُضَر اَلَّذِیْ بَیْنَ جُمَادیٰ وَشَعْبَانَ) [ صحیح البخاری، التفسیر باب سورۃ التوبۃ]
’’ سال بارہ مہینوں کا ہے ، جن میں چار حرمت والے ہیں ، تین پے در پے ہیں اور وہ ذوالقعدۃ، ذوالحجہ اور محرم ہیں ۔ا ور چوتھا مہینہ رجبِ مضرہے جو کہ جمادی الثانیہ اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ ماہ محرم بھی حرمت والے مہینوں میں سے ایک، لہذا اس کا احترام ہم سب فرض و واجب ہے" ۔
ظلم اور گناہوں سے بچنے کی تاکید
برادران اسلام ! اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حرمت والے چار مہینوں کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے: {فَلاَ تَظْلِمُوْا فِیْہِنَّ أَنْفُسَکُمْ } یعنی ’’ ان میں (خصوصی طور پر ) تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو ۔ ‘‘
ظلم تو سال کے بارہ مہینوں میں ممنوع ہے لیکن ان چار مہینوں کی عزت وحرمت اور ان کے تقدس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے خاص طور پران میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے سے منع فرمادیا ۔
اس ظلم سے مراد کیا ہے ؟
اس ظلم سے ایک تو یہ مراد ہے کہ ان مہینوں میں جنگ وجدال اور قتال نہ کیا کرو ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّہْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ}[البقرۃ2 :217]
’’ لوگ آپ سے حرمت والے مہینے میں لڑائی کی بابت سوال کرتے ہیں ، آپ کہہ دیجئے کہ اس میں لڑائی کرنا بڑا گناہ ہے ۔ ‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ زمانۂ جاہلیت میں بھی لوگ ان چار مہینوں کی حرمت کا خیال رکھتے تھے اور آپس کی جنگ اور لڑائی کو ان میں روک دیا کرتے تھے ، پھر اسلام نے بھی ان کے احترام وتقدس کو برقرار رکھا اور ان میں لڑائی کو کبیرہ گناہ قرار دیا ۔
اور ظلم سے مراد یہ بھی ہے کہ تم ان چار مہینوں میں خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچو ، کیونکہ ان میں نافرمانی کرنے کا گناہ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
جیساکہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو سال کے بارہ مہینوں میں حرام قرار دیا ہے ، پھر ان میں سے چار مہینوں کو خاص کردیا ہے کیونکہ ان میں برائی اور نافرمانی کا گناہ زیادہ ہوجاتا ہے اور نیکی اور عمل صالح کا اجر وثواب بڑھ جاتا ہے۔ ‘‘[تفسیر ابن کثیر: 468/2]
اس لئے ہمیں اس بابرکت مہینے میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنی چاہیے اور گناہوں سے اپنا دامن پاک رکھنا چاہئے ، کیونکہ گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہوجاتا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : { کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ }[المطففین83 :14]
’’ یوں نہیں ، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑھ گیا ہے ۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے ، پھر اگر وہ توبہ کرلیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کرمعافی مانگ لیتا ہے تو اس کے دل کو دھودیا جاتا ہے۔اور اگر وہ گناہ پر گناہ کئے جاتا ہے تو وہ سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کے دل پر چھاجاتی ہے ۔ تو یہی وہ ( رَین ) ’’ زنگ ‘‘ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے قرآن میں تذکرہ کیا ہے : { کَلَّا بَلْ رَانَ عَلیٰ قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ}" (سنن الترمذی:3334:حسن صحیح ، ابن ماجۃ 4244وحسنہ الألبانی)
لہذا ! سال بھر میں عموما اور ان چار مہینوں میں خصوصا ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گناہوں سے اجتناب کرنا چاہئے"۔
ماہ محرم اور یوم عاشوراء کے روزوں کی فضیلت
برادران اسلام! یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ماہ محرم میں خاص طور پر روزے رکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے، باالخصوص یوم عاشوراء (دسویں محرم) کا روزہ رکھتے تھے،
کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : (( أَفْضَلُ الصِّیَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَہْرُ اللّٰه الْمُحَرَّمُ،وَأَفْضَلُ الصَّلاَۃِ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ صَلاَۃُ اللَّیْل)) [صحیح مسلم:1136]
’’ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے ماہ محرم کے روزے ہیں جو کہ اللہ کا مہینہ ہے ۔ اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔
نیز حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے دیکھا کہ یہودی یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں ، آپ نے ان سے پوچھا : تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو ؟ انہوں نے کہا : یہ ایک عظیم دن ہے ، اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا ۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی دن کا روزہ شکرانے کے طور پر رکھا ۔ اس لئے ہم بھی اس دن کا روزہ رکھتے ہیں ۔ اس پر آپ نے فرمایا : ( فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلٰی بِمُوْسیٰ مِنْکُمْ )’’ تب تو ہم زیادہ حق رکھتے ہیں اور تمہاری نسبت ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں ‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی اس دن کا روزہ رکھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا ۔[ صحیح البخاری ، الصوم باب صیام عاشوراء :2004 ،صحیح مسلم :1130]
اسی طرح یوم عاشوراء کے روزوں کی فضیلت کے متعلق حضرت ابو قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یومِ عاشوراء کے روزے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :(یُکَفِّرُ السَّنَۃَ الْمَاضِیَۃَ ) [صحیح مسلم :1162] یعنی ’’پچھلے ایک سال کے گناہوں کو مٹادیتا ہے ۔‘‘
لہذا! اس حدیث کے پیش نظر ہر مسلمان کو یومِ عاشوراء کے روزے کا اہتمام کرنا چاہئے اور اتنی بڑی فضیلت حاصل کرنے کا موقعہ ملے تو اسے ضائع نہیں کرنا چاہیئے ۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہمارے پیش نظر ہونا چاہیے (( صُوْمُوْا یَوْمَ عَاشُوْرَائَ،وَخَالِفُوْا فِیْہِ الْیَہُوْدَ،وَصُوْمُوْا قَبْلَہُ یَوْمًا أَوْ بَعْدَہُ یَوْمًا)) [مسند أحمد: 241/1]
’’ تم یومِ عاشوراء کا روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ۔ اور اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک دن بعد کا روزہ رکھو ۔ ‘‘
اسی حدیث کے پیشِ نظر بعض اہلِ علم کا کہنا ہے کہ جو شخص نو محرم کا روزہ نہ رکھ سکے وہ دس محرم کا روزہ رکھنے کے بعدیہودونصاری کی مخالفت کرنے کیلئے گیارہ محرم کا روزہ رکھ لے ۔
اور شاید اسی روایت کے پیش ِ نظر علامہ ابن القیم رحمہ اللہ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ صوم عاشوراء کے تین مراتب ہیں:سب سے ادنیٰ مرتبہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے ، پھر اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جائے اور اس سے اونچا مرتبہ یہ ہے کہ ان دونوں کے ساتھ گیارہ محرم کا روزہ بھی رکھا جائے ، کیونکہ اس مہینے میں جتنے زیادہ روزے رکھے جائیں گے اتنا زیادہ اجر وثواب ہوگا ۔ واللہ أعلم ۔
زاد المعاد :72/2، وفتح الباری :289/4]
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حرمت والے مہینوں کا احترام کرنے اور ان میں اور اسی طرح باقی مہینوں میں اپنی نافرمانی سے بچنے کی توفیق دے ۔ آمین
ماہ محرم غم اور ماتم کا مہینہ نہیں
معزز سامعین ! آخری بات تنبیہ کے طور پر آپ لوگوں سے عرض کرتا چلوں کہ ماہِ محرم میں نوحہ اور ماتم وغیرہ نواسۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں کیا جاتاہے اور کون مسلمان ہے کہ جس کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کی شہادت پر غم اور افسوس نہیں ہو گا ؟
یقینا ہر مسلمان کو اس پر حزن وملال ہوتا ہے لیکن جس طرح ہر صدمہ میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت پر بھی صبر وتحمل کا ہی مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ نہ کہ نوحہ ، ماتم اور سینہ کوبی جیسے جاہلیت والے اعمال وافعال کا ۔
اللہ رب العزت کا فرمان ہے:{وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ٭ الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ٭ أُوْلَئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَّأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ}[البقرۃ 2 :155 157]
’’اور ہم تمھیں ضرور آزمائیں گے ، کچھ خوف و ہراس اور بھوک سے ، مال وجان اور پھلوں میں کمی سے ۔ اور آپ (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !) صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے ، جنھیں جب کوئی مصیبت لاحق ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں : ہم یقینا اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی نوازشیں اور رحمت ہوتی ہے۔ اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔ ‘‘
اسی طرح ایک دوسرے جگہ فرمانِ الٰہی ہے :{إِنَّمَا یُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ }[الزمر39: 10]
’’صبر کرنے والوں ہی کو ان کا اجر بغیر حساب کے دیا جاتا ہے۔ ‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے بیٹے حضرت ابراہیم کا انتقال ہوگیا آپ نے اس وقت صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جیساکہ:
حضرت انس رضی ﷲ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول ﷲﷺ کے ساتھ حضرت ابوسیف رضی اللّٰه عنہ کے مکان پر گئے یہ وہ وقت تھا کہ حضرت ابراہیم جان کنی کے عالم میں تھے۔ یہ منظر دیکھ کر رحمتِ عالمﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللّٰه عنہ نے عرض کیا کہ یارسول ﷲ!ﷺ کیا آپ بھی روتے ہیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اے عوف کے بیٹے! یہ میرا رونا ایک شفقت کا رونا ہے۔ اس کے بعد پھر دوبارہ جب چشمان مبارک سے آنسو بہنےلگے تو آپ کی زبان مبارک پر یہ کلمات جاری ہوگئے: ’’اِنَّ الْعَیْنَ تَدْمَعُ وَ الْقَلْبَ یَحْزَنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلاَّ مَا یَرْضٰی رَبُّنَا وَاِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا اِبْرَاہِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ‘‘
آنکھ آنسو بہاتی ہے اور دل غمزدہ ہے مگر ہم وہی بات زبان سے نکالتے ہیں جس سے ہمارا رب خوش ہو جائے اور بلاشبہ اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے بہت زیادہ غمگین ہیں۔(صحیح بخاری:1303)
حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ کا انتقال ہوا اتفاق سے اسی دن سورج گرہن لگا۔ عربوں کے دلوں میں زمانہ جاہلیت کا یہ عقیدہ جما ہوا تھا کہ کسی بڑے آدمی کی موت سے چاند اور سورج میں گرہن لگتا ہے۔ چنانچہ بعض لوگوں نے یہ خیال کیا کہ غالباً یہ سورج گرہن حضرت ابراہیم رضی اللّٰه عنہ کی وفات کی وجہ سے ہوا ہے۔
حضورِ اقدسﷺ نے اس موقع پر ایک خطبہ دیا جس میں جاہلیت کے اس عقیدہ کا رد فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’اِنَّ اْلشَّمْسَ وَالْقَمَرَ اٰیَتَانِ مِنْ اٰیٰاتِ اﷲِ لَایَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْھَا فَادْعُوا اللہَ وَصَلُّوْا حَتّٰی یَنْجَلِیْ‘‘۔ (صحیح بخاری:1060)
یقیناً چاند اور سورج ﷲ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ کسی کے مرنے یا جینے سے ان دونوں میں گرہن نہیں لگتا جب تم لوگ گرہن دیکھو تو دعائیں مانگو اور نماز کسوف پڑھو یہاں تک کہ گرہن ختم ہو جائے۔
ایک دوسری روایت میں ہے: آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ میرے فرزند ابراہیم نے دودھ پینے کی مدت پوری نہیں کی اور دنیا سے چلا گیا۔ اس لیے ﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے بہشت میں ایک دودھ پلانے والی کو مقرر فرما دیا ہے جو مدت رضاعت بھر اس کو دودھ پلاتی رہے گی۔ ( صحیح بخاری:6195)
چنانچہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کو بھی اللہ تعالیٰ کی قضا وقدر سمجھتے ہیں جیسا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے والد حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی بقضاء وقدرِ الٰہی شہید ہوئے ۔ اور آپ اس وقت شہید ہوئے جب آپ سنہ 40ھ میں سترہ رمضان بروزجمعۃ المبارک کو فجر کی نماز ادا کرنے کیلئے جا رہے تھے ! اسی طرح ان سے پہلے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی ظالموں نے انتہائی المناک انداز میں شہید کیا ۔ اور آپ ماہِ ذو الحجہ 36 ھ میں ایامِ تشریق کے دوران شہیدہوئے اور ان سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اس وقت شہید ہوئے جب آپ فجر کی نماز میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے اور یہ سب یقینی طور پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے افضل تھے اور ان کی شہادت کے واقعات زیادہ المناک اور افسوسناک ہیں ، لیکن ایسے تمام واقعات پر ہم سوائے ( إنا اللّٰه وإنا إلیہ راجعون ) کے اور کیا کہہ سکتے ہیں ۔
وماتوفيقي إلا باللہ