عظمت صحابہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین ) بزبان مصطفٰے ( صلی اللہ علیہ وسلم)
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔
فَاَعُوذُ بِاللہِ السمیع العلیم مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَۃً وَّأَجْراً عَظِیْمًا}
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لاَ تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہُ(رواہ مسلم)
برادرانِ اسلام! ماہ محرم میں جہاں بہت ساری بدعات و خرافات کا مظاہرہ ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہیں ایک ظلم یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگردان گرامی ( صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ) کو بُرا بھلا کہا جاتا اور انہیں سب وشتم کیا جاتا ہے۔ حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا حرام ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اہل سنت والجماعت کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے امام طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک صحابی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں سے کسی صحابی سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں اور ہم ہر ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھتا ہو اور انہیں خیر کے ساتھ ذکر نہ کرتا ہو ۔ ہم انہیں خیر کے ساتھ ہی ذکر کرتے ہیں اور ان کی محبت کو عین دین ، عین ایمان اور عین احسان سمجھتے ہیں، جب کہ ان سے بغض رکھنا کفر،نفاق اور سرکشی تصور کرتے ہیں۔ ‘‘
لہٰذا آج کے خطبہ جمعہ میں ہم ان ہی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے فضائل ومناقب کا ذکر کریں گے، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ بار الہ ہم سب کو حق کہنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
مقام صحابہ قرآن کریم کی روشنی میں
1۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :{وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَہُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا اَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ }[التوبۃ9:100]
’’اور مہاجرین وانصار میں سے وہ اوّلیں لوگ جو کہ ( ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں ) دوسروں پر سبقت لے گئے اور وہ دوسرے لوگ جنہوں نے ان سابقین کی اخلاص کے ساتھ پیروی کی،اللہ ان سب سے راضی ہوگیا اور وہ سب اللہ سے راضی ہوگئے اور اللہ نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہونگی ، ان میں وہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے۔ ( اور ) یہی عظیم کامیابی ہے ۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین قسم کے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے :
1۔مہاجرین، جنہوں نے رب العزت کے دین کی خاطر اپنے آبائی وطن اور مال ومتاع کو چھوڑا اور مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔
2۔ انصارِ مدینہ ، جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نصرت ومدد کی اور ان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔
اللہ تعالیٰ نے ان دونوں ( مہاجرین وانصار ) میں سے ان حضرات کا تذکرہ فرمایا ہے جو ہجرت کرنے اور ایمان لانے میں سبقت لے گئے ، یعنی سب سے پہلے ہجرت کرکے اور سب سے پہلے ایمان قبول کرکے وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنے ۔
3۔وہ حضرات جنہوں نے ان سابقین اولین کی اخلاص ومحبت سے پیروی کی اور ان کے نقشِ قدم پہ چلے ۔ ان میں متأخرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، تابعین اور قیامت تک آنے والے وہ تمام لوگ شامل ہیں جو انہیں معیارِ حق تصور کرتے ہوئے ان کے پیروکار رہیں گے ۔
تینوں قسم کے لوگوں کا تذکرہ کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے انہیں دو خوشخبریاں سنائی ہیں ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا ہے ، یعنی ان کی لغزشیں معاف کردی ہیں اور ان کی نیکیوں کو شرفِ قبولیت سے نوازا ہے ۔ اور دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنات تیار کردی ہیں جن میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور ان کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے ۔
2. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : { مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْئَہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَۃً وَّأَجْراً عَظِیْمًا }[الفتح 48:29]
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں ۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں رحمدل ہیں ۔ آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ رکوع اور سجدے کررہے ہیں ، اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں ، سجدوں کے اثر سے ان کی نشانی ان کی پیشانیوں پر عیاں ہے ۔ ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور انجیل میںان کی مثال اس کھیتی کی مانند بیان کی گئی ہے جس نے پہلے اپنی کونپل نکالی ، پھر اسے سہارا دیا تو وہ موٹی ہوگئی ، پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہوگئی ، وہ کھیت اب کاشتکاروں کو خوش کررہا ہے۔ ( اللہ نے ایسا اس لئے کیا ہے ) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑ آئے ۔ ان میں سے جو ایمان لائے اور انھوں نے عمل صالح کیا ان سے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے ۔ ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں :
1۔ وہ کافروں پر سخت ہیں ۔
2۔ اور آپس میں رحم دل ہیں ۔
3۔رکوع وسجود کی حالت میں رہتے ہیں ۔
4۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طالب رہتے ہیں ۔
5۔سجدوں کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر ایک نشان نمایاں ہے ۔
6۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ان کے شرف وفضل کے تذکرے پہلی آسمانی کتابوں میں بھی موجود تھے۔
7۔ ان کی مثال اس کھیتی کے مانند ہے جو پہلے کمزور اور پھر آہستہ آہستہ قوی ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پہلے کمزور تھے ، پھر طاقتور ہوگئے اور ان کا اثر ورسوخ بڑھتا چلا گیا جس سے کافروں کو چڑ تھی اور وہ غیظ وغضب میں مبتلا ہوتے تھے ۔
ان صفات کے حامل اور ایمان وعملِ صالح آراستہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔
3. اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : { لَقَدْ تَابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہَاجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْہِمْ اِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ }[ التوبۃ9:117]
’’ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر کے حال پر توجہ فرمائی اور مہاجرین و انصار کے حال پر بھی ، جنہوں نے تنگی کے وقت پیغمبر کا ساتھ دیا ، اس کے بعد کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل ہوچلا تھا ، پھر اللہ نے ان کے حال پر توجہ فرمائی ،بلا شبہ اللہ تعالیٰ ان سب پر بہت شفیق ومہربان ہے ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ان مہاجرین وانصار کی تعریف فرمائی ہے جنہوں نے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا۔ ’’ تنگی کے وقت ‘‘ سے مراد جنگِ تبوک ہے جس میں تنگی کا عالم یہ تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہ کھانے کو کوئی چیز ملتی تھی اورنہ پینے کو پانی میسر تھا ، شدید گرمی کا موسم تھا ۔ سوار زیادہ تھے اورسواریاں کم تھیں ، لیکن اس قدر تنگی کے عالم میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑا اور ہر قسم کی تنگ حالی کو برداشت کیا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ’’ تنگی کے وقت ‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا :
’’ ہم شدید گرمی کے موسم میں نکلے ، راستے میں ہم ایک جگہ پر رُکے جہاں ہمیں شدید پیاس محسوس ہوئی ، حتی کہ ہمیں ایسے لگا کہ ہماری گردنیں شدتِ پیاس کی وجہ سے الگ ہوجائیں گی ۔ اور حالت یہ تھی کہ ہم میں سے کوئی شخص جب اپنا اونٹ ذبح کرتا تو اس کے اوجھ کو نچوڑ لیتا اور جو پانی نکلتا اسے پی لیتا ۔ جب حالت اس قدر سنگین ہوگئی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گذارش کی کہ اے اللہ کے رسول ! اللہ تعالیٰ آپ کی دُعا قبول کرتا ہے ، لہٰذا ہمارے لئے دعا کیجئے ۔ چنانچہ آپ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ابھی آپ کے ہاتھ واپس نہیں لوٹے تھے کہ ہم پر بادل چھاگئے اور بارش ہونے لگی ۔ پس تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے برتن بھر لئے ، پھر جب ہم وہاں سے روانہ ہوئے تو ہمیں معلوم ہوا کہ بارش تو محض اسی جگہ پر ہی ہوئی تھی جہاں ہم رکے ہوئے تھے۔‘‘ [ تفسیر القرطبی: 279/8،تفسیر ابن کثیر:522/2]
اورحضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جنگ تبوک کے سفر میں کھانے پینے کی اس قدر کمی تھی کہ ایک کھجور کے دو حصے کرکے دو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں بانٹ لیتے ۔ اور شدتِ پیاس کو بجھانے کے لئے کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک ہی کھجور کو باری باری چوستے رہتے ۔
جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
’’ ہم غزوۂ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، اس دوران لوگ شدتِ بھوک میں مبتلا ہوئے اور کہنے لگے ، اے اللہ کے رسول ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کرلیں ۔ تو آپ نے اجازت دے دی لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے :
اے اللہ کے رسول ! اگر یہ اپنے اونٹ ذبح کریں گے تو سواریاں کم ہوجائیں گی ، آپ انہیں حکم دیں کہ ان کے پاس کھانے کی جو بھی چیز موجود ہو وہ ایک جگہ پر اکھٹی کریں ، پھر آپ اللہ تعالیٰ سے برکت کی دعا فرمائیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ٹھیک ہے ۔ پھر آپ نے ایک چادر (دستر خواں ) بچھانے کا حکم دیا اور لوگوں کو ارشاد فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ موجود ہے وہ اسے لاکر اس چادر پر رکھ دے ۔ چنانچہ ایک شخص آتا اور وہ مٹھی بھر مکئی اس پر رکھ دیتا ۔ اور ایک شخص آتا اور وہ مٹھی بھر کھجور اس پر رکھ دیتا ۔ اور ایک شخص آتا اور وہ جَو کی روٹی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اس میں جمع کردیتا ۔ اِس طرح اس دستر خواں پر تھوڑا سا کھانے کا سامان جمع ہوگیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی اور اس کے بعد لوگوں سے کہا : ’’ اب تم اپنے برتنوں میں اس کھانے میں سے لے جاؤ ۔‘‘
چنانچہ فوج کے تمام افراد نے اپنے اپنے برتن خوب بھرلئے اور سب نے پیٹ بھر کر کھانا بھی کھایا ۔ پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں ۔ جو شخص بھی ان دو گواہیوں کے ساتھ اللہ سے ملے گا اور اسے ان کے بارے میں کوئی شک نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور جنت میں داخل کرے گا ۔‘‘[مسند أحمد:11/3حدیث:11095]
4. فرمانِ الٰہی ہے :{ قُلِ الْحَمْدُ للّٰہِ وَسَلَامٌ عَلیٰ عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی }[النمل27:59]
’’آپ کہہ دیجئے ! تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور اس کے ان بندوں پر سلام ہے جنہیں اس نے چن لیا۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بندوں پر سلام بھیجا ہے اور انہیں برگزیدہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ ان سے مراد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کیلئے منتخب فرمایا ۔
اور امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’ وہ بندے جنہیں اللہ تعالیٰ نے چن لیا ، ان سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اللہ نے اپنے نبی کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں آپ کا ساتھی اور وزیر بنایا ۔‘‘ [جامع البیان:2/20،منھاج السنۃ لابن تیمیہ:156/1]
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ اگر کوئی شخص اقتداء کرنا چاہتاہو تو وہ اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلے جو کہ فوت ہوچکے ہیں۔ وہ امت کے سب سے بہتر لوگ تھے ، وہ سب سے زیادہ پاکیزہ دل والے ، سب سے زیادہ گہرے علم والے اور سب سے کم تکلف کرنے والے تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنے نبی کی صحبت اور اپنے دین کو اگلی نسلوں تک پہنچانے کیلئے منتخب کر لیا تھا ۔ لہٰذا تم انہی کے اخلاق اورطور طریقوں کو اپناؤ کیونکہ وہ جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے اور صراطِ مستقیم پر چلنے والے تھے ۔ ‘‘ [حلیۃ الأولیاء :306-305/1 ]
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰٰ نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سب سے بہتر پایا ۔ لہٰذا انہیں اپنے لئے چن لیا اور انہیں منصب ِ رسالت عطا کیا ۔ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو سب سے بہتر پایا ۔ اس لئے انہیں اپنے نبی کے وزراء کا منصب عطا کر دیا۔[المسند:379/1، شرح السنۃ:214/1 ]
5. أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ ۖ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ ۚ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"(المجادلة:22)
یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان پختہ کردیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا فرما کر انہیں ایک طاقت عطا کردی ہے۔ وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، یہ اللہ کی جماعت ہے، آگاہ ہوجاؤ کہ اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہونے والی ہے ۔
اس آیت کی تفسیر میں عبدالرحمن بن ناصر السعدی لکھتے ہیں: اس وصف کے حامل وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان لکھ دیا ہے ،یعنی اس کو راسخ اور ثابت کردیا ہے اور ان کے دلوں میں شجر ایمان کو اگا دیا ہے جو کبھی متزلزل ہوسکتا ہے نہ شکوک وشبہات اس پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنی طرف سے روح کے ذریعے سے طاقت وربنایا ہےیعنی اپنی وحی، اپنی معرفت، مددالٰہی اور اپنے احسان ربانی کے ذریعے سے تائید کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے دنیا میں حیات طیبہ ہے اور آخرت میں ان کے لیے نعمتوں بھری جنتیں ہیں جہاں ہر وہ چیز ہوگی جو دل چاہیں گے، جس سے آنکھیں لذت اندوز ہوں گی اور اسے پسند کریں گی ،ان کے لیے ایک سب سے بڑی اور افضل ترین نعمت ہوگی اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رضامندی نازل فرمائے گا اور ان سے کبھی ناراض نہیں ہوگا ۔(تفسیر سعدی)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے پانچ اوصاف بیان فرمائے ہیں
(1) یہ کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کی تختیوں پر اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیا ہے،
(2) اور جن کی تائید اپنی روح ،نصرت خاص، نور ایمان، یا جبرئیل امین سے کی ہے،
(3) اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے،
(4) اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں،
(5) یہ خدائی لشکر اور یہی کامیاب لوگ ہیں۔
مقام صحابہ احادیث کی روشنی میں
برادران اسلام! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں ہم نے صرف پانچ قرآنی آیات اور ان کی مختصر سی تفسیر بیان کی ہے۔ ویسے قرآن مجید ان کے اوصاف وفضائل کے حسین تذکرے سے بھرا پڑا ہے لیکن ہم اختصار کے پیشِ نظر آگے بڑھتے ہیں اور نبی ٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی آپ کے قابلِ فخر شاگردان گرامی کا ذکر ِ خیر سنتے ہیں ۔
1 ۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلنُّجُوْمُ أَمَنَۃٌ لِلسَّمَائِ،فَإِذَا ذَہَبَتِ النُّجُوْمُ أَتَی السَّمَائَ بِمَا تُوْعَدُ،وَأَنَا أَمَنَۃٌ لِأَصْحَابِیْ، فَإِذَا ذَہَبْتُ أَتٰی أَصْحَابِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ،وَأَصْحَابِیْ أَمَنَۃٌ لِأُمَّتِیْ،فَإِذَا ذَہَبَ أَصْحَابِیْ أَتٰی أُمَّتِیْ مَا یُوْعَدُوْنَ[مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ ۔ باب أن بقاء النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم أمان لأصحابہ :2531]))
’’ستارے آسمان کے لئے امان ہیں ، لہٰذا جب ستارے جھڑ جائیں گے تو آسمان بھی نہیں رہے گا جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔اور میں اپنے صحابہ کے لئے امان ہوں ، لہٰذا جب میں فوت ہوجاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ وقت آ جائے گاجس کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم میری امت کے لئے امان ہیں ، لہٰذا جب میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ختم ہوجائیں گے تو میری امت پر وہ چیز نازل ہوجائے گی جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے۔ ‘‘
امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جب تک ستارے باقی ہیں آسمان بھی باقی ہے ۔اور جب قیامت کے دن ستارے بے نور ہوکر گرجائیں گے تو آسمان بھی پھٹ جائے گا ۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بقا آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے امان تھی،جونہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بقاء امت کے لئے امان تھی ،جونہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس دنیا سے چل بسے تواس امت میں فتنے کھڑے ہوگئے ، بدعات ظاہر ہوگئیں اور امت انتشار کا شکار ہوگئی ۔[شرح مسلم للنووی:83/16۔]
2۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کونسے لوگ سب سے بہتر ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( قَرْنِیْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ [صحیح البخاری:کتاب الشہادات،باب لا یشہد علی شہادۃ جور إذا شہد: الرقم:2652،صحیح مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ،باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونہم 2533۔]))
’’ میری صدی کے لوگ (سب سے بہتر ہیں) ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ، پھر وہ جو ان کے بعد آئیں گے ۔
یعنی "میر ی امت میں سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں(صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین )،پھر وہ ہیں جو ان کےساتھ(کے دور میں) ہوں گے(تابعین) ،پھر وہ جوان کے ساتھ(کے دور میں)ہوں گے(تبع تابعین) ، رحمہھم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ۔
3۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ تَسُبُّوْ أَصْحَابِیْ ، فَوَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَوْ أَنَّ أَحَدَکُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَھَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِہِمْ وَلاَ نَصِیْفَہُ[صحیح البخاری:2541 ،3673، صحیح مسلم:2540۔]))
’’ میرے ساتھیوں کو گالیاں مت دینا ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم میں سے کوئی شخص اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ نہ ان کے ایک مُدّ کے برابر ہوسکتا ہے اور نہ آدھے مُدّ کے برابر۔ ‘‘
اِس سے مراد یہ ہے کہ کسی ایک صحابی نے اپنی تنگ دستی کے باوجود جو تھوڑا بہت اللہ کی راہ میں خرچ کیا وہ اللہ کے ہاں زیادہ پاکیزہ ہے اور زیادہ اجر وثواب کے لائق ہے بہ نسبت اس زرِ کثیر کے جو ان کے بعد آنے والے کسی شخص نے خرچ کیا ۔
4۔ حضرت ابوعبد الرحمن الجہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک دو سوار رونما ہوئے ، وہ دونوں آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک شخص نے بیعت کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ کا اس شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جس نے آپ کو دیکھا ، آپ پر ایمان لے آیا اور آپ کی پیروی اور تصدیق کی ، اسے کیا ملے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس کے لئے طوبیٰ ہے ۔‘‘ ( جنت میں ایک درخت کا نام ) پھر اس نے بیعت کی اور پیچھے ہٹ گیا ۔ اس کے بعد دوسرا شخص آگے بڑھا اور اس نے بھی بیعت کرتے ہوئے وہی سوال کیا جو پہلے شخص نے کیا تھا ۔ تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اس کے لئے طوبیٰ ہے، پھر اس کے لئے طوبیٰ ہے۔ ‘‘[مسند أحمد:17388، الطبرانی:742/22، البزّار: 2769( کشف الأستار)،مجمع الزوائد 18/10 وإسنادہ حسن]
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں اور بہت سی احادیث کتبِ حدیث میں موجود ہیں ۔ بلکہ شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب اور ان کی تعریف میں اور اسی طرح ان کی صدی کی دوسری صدیوں پر فضیلت کے بارے میں احادیث مشہور بلکہ متواتر درجہ کی ہیں ، لہٰذا ان کی عیب گیری کرنا دراصل قرآن وسنت میں عیب جوئی کرنا ہے۔‘‘ [مجموع الفتاوی :430/4]
5. حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے : (لاَ تَسُبُّوْا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صلي اللّٰه عليه وسلم ، فَلَمُقَامُ أَحَدِہِمْ سَاعَۃً خَیْرٌ مِنْ عَمَلِ أَحَدِکُمْ عُمُرَہُ ) [ سنن ابن ماجہ، باب فی فضائل أصحاب النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم (162) صحیح ابن ماجۃ للألبانی: 133-132/1]
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو برا بھلا نہ کہناکیونکہ ایک گھڑی کے لئے ان کا ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ) کھڑا ہونا تمہاری پوری زندگی کے عمل سے بہتر ہے۔ ‘‘
بعض صحابہ کرام کے خاص فضائل و مناقب
برادران اسلام! اب تک آپ نے وہ وہ فضائل سماعت فرمائے جو عموما تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیلئے ہیں ۔ اب آئیے لگے ہاتھوں ہم بعض فضائل جو خصوصا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہیں، ان میں سے چند ایک کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
1۔ انصارِ مدینہ کے فضائل:
انصارِ مدینۂ طیبہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت یوں ارشاد فرماتا ہے :{وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ }[الحشر59 :9]’’اور ( ان لوگوں کیلئے بھی ) جو ان ( مہاجرین ِ مکہ کے آنے ) سے پہلے یہاں ( مدینہ میں) مقیم تھے اورایمان لا چکے تھے ۔ وہ ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے۔ وہ ( مہاجرین کو ) اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں ۔ اور جو لوگ اپنے نفس کی تنگی اور بخل سے بچا لئے جائیں وہی کامیاب ہونے والے ہیں ۔
‘‘اس آیت ِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے انصارِ مدینہ رضی اللہ عنہم کی بعض صفات حمیدہ ذکر کی ہیں اور ان کے حق میں گواہی دی ہے کہ وہ مہاجرین ِ مکہ کے آنے سے پہلے ہی ایمان لا چکے تھے ۔ اور ان میں جذبہ ٔ ایثار وقربانی اس قدر پایا جاتا تھا کہ وہ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ آنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے دلی محبت کرتے تھے ۔ اور اگر مہاجرین کو مالِ غنیمت میں سے کچھ دیا جاتا تو یہ انصاراپنے دلوں میں کوئی تنگی یا گھٹن محسوس نہیں کرتے تھے۔ اور خواہ ان کے اپنے گھروں میں حاجت اور فاقہ کشی کی صورت ہوتی یہ اپنی ذات اور اپنی ضرورتوں پر ان کو اور ان کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے ۔
انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کے جذبۂ ایثار وقربانی کی ویسے تو کئی مثالیں موجود ہیں لیکن ہم یہاں صرف ایک مثال ذکر کرتے ہیں ۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (ہجرت کر کے ) ہمارے پاس آئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور حضرت سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کے درمیان بھائی چارہ قائم کیا جو کہ بہت مالدار تھے۔ انھوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں اور یہ بات انصار کو بھی معلوم ہے۔ میں اپنا مال دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں، ایک حصہ میرے لئے اور دوسرا آپ کیلئے ۔ اس کے علاوہ میری دو بیویاں بھی ہیں ، آپ کو ان دونوں میں سے جو زیادہ اچھی لگے میں اسے طلاق دے دیتا ہوں اور جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو آپ اس سے شادی کر لیں ۔
حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا : (بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِی أَہْلِکَ وَمَالِکَ)
’’ اللہ تعالیٰ آپ کے گھر والوں اور آپ کے مال میں برکت دے ۔ ‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ گھی اور پنیر کے مالک بن گئے اور ابھی کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر زرد رنگ کے کچھ آثار دیکھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا : یہ کیا ہے ؟ انھوں نے جواب دیا : میں نے ایک گٹھلی کے وزن کے برابر سونا دے کر ایک انصاری عورت سے شادی کر لی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مبارکباد دی اور فرمایا:(( أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاۃٍ [صحیح البخاری:3780، 3781 [3] صحیح البخاری:3779]))
2. اہل بدر کے فضائل ومناقب
برادرانِ اسلام!
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( لَعَلَّ اللّٰہَ اطَّلَعَ عَلٰی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: اعْمَلُوْا مَا شِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ)) وفی روایۃ:(( فَقَدْ وَجَبَتْ لَکُمُ الْجَنَّۃُ [صحیح البخاری،الجھاد والسیر،باب الجاسوس:3007، صحیح مسلم:کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل أہل بدر:2494]))
’’ شاید اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی طرف ( بنظرِ رحمت ) دیکھا اور پھر کہا : تم جو چاہو کرتے رہو ، میں نے تمہیں معاف کردیاہے۔ ‘‘ اور ایک روایت میں ہے :’’ تمہارے لئے جنت واجب ہوگئی ہے۔‘‘
اور رفاعہ بن رافع سے روایت ہے جو اہلِ بدر میں سے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے:اہلِ بدر کا آپ کے ہاں کیا مرتبہ ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ مسلمانوں میں سب سے افضل ہیں۔ تو حضرت جبریل علیہ السلام نے کہا:اسی طرح فرشتوں میں سے بھی وہ فرشتے سب سے افضل ہیں جو بدر میں شریک ہوئے۔ ‘‘[صحیح البخاری، کتاب المغازی،باب شھود الملآئکۃ بدرا :3992]
3. اہلِ اُحد کے فضائل ومناقب
برادران اسلام!
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے بھائی جب اُحد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز پرندوں کے پیٹوں میں بھیج دیا جوجنت کی نہروں پر جاتے اور اس کے پھل کھاتے ہیں ، پھر سایۂ عرش میں لٹکی ہوئی سونے کی قندیلوں کی طرف واپس آجاتے ہیں، پھر جب انھوں نے اپنے کھانے پینے اور اپنی نیند کی لذت محسوس کی توکہنے لگے: ہمارے بھائیوں تک ہماری طرف سے یہ بات کون پہنچائے گا کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور ہمیں رزق دیا جاتا ہے تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ موڑیں اور جنگ کے دوران الٹے پاؤں واپس نہ لوٹیں ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں انہیں تمھاری طرف سے یہ بات پہنچا دیتا ہوں،پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کر دی :(اور وہ لوگ جو اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے انہیں آپ مردہ نہ سمجھیں،وہ تو زندہ ہیں اور انہیں اپنے رب کے ہاں رزق دیا جاتا ہے الخ (سنن أبي داؤد :کتاب الجہاد،باب فی فضل الشہادۃ :2520،مسند أحمد :2384،حسّنہ الألبانی فی صحیح أبوداؤد:2199)
4. بیعت رضوان میں شریک ہونے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے فضائل ومناقب
برادران اسلام!
اللہ رب العزت نے سورۃ الفتح کی متعدد آیات میں ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی مدح وثناء کی ہے جو حدیبیہ کے مقام پر بیعت ِ رضوان میں شریک ہوئے اور انھوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ فرمانِ الٰہی ہے :
{لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا ٭ وَّمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا}[الفتح48: 19-18]
’’یقینا اللہ تعالیٰ ان مومنوں سے خوش ہوگیا جو درخت تلے آپ سے بیعت کررہے تھے ، ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کرلیا ۔ پس اس نے ان پر اطمینان نازل فرمایا ، انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی اور بہت سی غنیمتیں جنہیں وہ حاصل کریں گے۔ اللہ تعالی غالب اور حکمت والا ہے ۔ ‘‘
اور حضرت ام بشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( لاَیَدْخُلُ النَّارَ إِنْ شَائَ اللّٰه مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا تَحْتَہَا [مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ ، باب فضائل أصحاب الشجرۃ:2496]))
ان درخت والوں میں سے کوئی صحابی إن شاء اللہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا جنہوں نے اس کے نیچے بیعت کی۔‘‘
یاد رہے کہ اس حدیث میں ’’إن شاء اللّٰه ‘‘ محض تبرک کے لئے ہے ، ورنہ یہ بات یقینی ہے کہ ان میں سے کوئی صحابی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔[النووی،شرح مسلم :85/16]
5. خلفائے راشدین کے فضائل ومناقب
برادران اسلام!
1. حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کی نماز کے بعد ہمیں نہایت فصیح و بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں میں آنسو جاری ہو گئے اور دل کانپنے لگے. ایک شخص نے کہا : یہ تو الوداع ہونے والے شخص کے وعظ جیسا (خطاب) ہے. یا رسول اﷲ! آپ ہمیں کیا وصیت فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمہیں پرہیزگاری اور سننے اور ماننے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ تمہارا حاکم حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو. اس لیے کہ تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا. خبردار (شریعت کے خلاف) نئی باتوں سے بچنا کیوں کہ یہ گمراہی کا راستہ ہے لہٰذا تم میں سے جو یہ زمانہ پائے تو وہ میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو اختیار کر لے، تم لوگ (میری سنت کو) دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لینا (یعنی اس پر سختی سے کاربند رہنا).‘‘(ترمذی:2676)
2. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جبلِ اُحد پر تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) بھی تھے، اچانک پہاڑ اُن (کی آمد) کے باعث (جوشِ مسرت سے) جھومنے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اُحد! ٹھہر جا، تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہیں.‘‘(صحیح بخاری:3472)
3. حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی سے گیلی مٹی کھرچ رہے تھے، ایک شخص نے دروازہ پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس (آنے والے) کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا : آنے والے حضرت ابوبکر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی. پھر ایک شخص نے دروازہ پر دستک دی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس (آنے والے) کو (بھی) جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو بھی جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک شخص نے دروازہ پر دستک دی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا دروازہ کھول دو اور اس (آنے والے) کو مصیبتوں کے ساتھ جنت کی بشارت دے دو، میں نے جاکر دروازہ کھولا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دی، اور جو کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ بھی کہہ دیا تو انہوں نے کہا : اے اللہ صبر عطا فرما، یا اللہ تجھ ہی سے مدد طلب کی گئی ہے.‘‘(صحیح مسلم :2403)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا حرام ہے
برادران اسلام!
اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہنا اور انہیں گالیاں دینا حرام ہے ۔
اس کی حرمت قرآن وحدیث کے واضح دلائل سے ثابت ہے ۔ مثلاً : 1۔فرمانِ الٰہی ہے:
{وَالَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِیْنًا }[الأحزاب33:58]
’’جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو بغیر کسی جرم کے ایذا دیں وہ بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں‘‘
اس آیت میں مومنوں کا ذکر کیا گیا ہے اور اس امت کے اوّلین مومنین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے ۔ تو انہیں سب وشتم کے ذریعے ایذاء پہنچانا قرآن مجید کے الفاظ میں بہتان اور واضح گناہ ہے ۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ سَبَّ أَصْحَابِیْ فَعَلَیْہِ لَعْنَۃُ اللّٰه وَالْمَلَآئِکَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ)) [الطبرانی فی الکبیر:174/3، وانظر : الصحیحۃ للألبانی :2340] ’’جس شخص نے میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو گالیاں دیں اس پر اللہ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔
ان تمام دلائل سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اپنے دلوں کو بغض اور کینہ سے پاک رکھنا اور اپنی زبانوں کو ان پر سبّ وشتم کرنے سے محفوظ رکھنا لازمی امر ہے ۔ ورنہ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جو شخص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتا اور ان کی عیب گیری کرتا ہو وہ در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب گیری کرتا ہے ، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو انہیں بشارتیں سنائی ہیں اور انہیں امین اور ثقہ قرار دیا ہے ۔بلکہ وہ شخص در اصل اللہ تعالیٰ پر بھی اعتراض کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی انہیں اپنے نبی کے ساتھ کے لئے منتخب فرمایا، انہیں اپنی رضا مندی سے نوازا اور ان سے جنت کا وعدہ فرمایا ۔ بلکہ وہ شخص دراصل پورے دین ِ الٰہی میں طعنہ زنی کرتا ہے کیونکہ اس دین کو نقل کرنے والے یہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی تو ہیں ۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عیب گیری کرنا انتہائی خطرناک امر ہے جس سے فوری طور پر توبہ کرنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سچی محبت کرنے کی توفیق دے ۔آمین
خلاصہ کلام:
برادرانِ اسلام! میری ان تمام باتوں کا خلاصہ یہی ہے کہ صحابہ کرامؓ وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو ربّ کائنات نے اپنے آخری پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی صحبت کے لئے چنا ہے۔ اس بابرکت جماعت کی فضیلت و منقبت کے لئے یہ بات ہی کافی ہے کہ پروردگار، ان سب سے راضی ہو چکا ہے اور وہ اپنے پروردگار سے راضی ہو چکے ہیں۔ وحی الٰہی کے اوّلین مخاطب بھی أصحاب رسولؐ ہیں۔ جنہوں نے دینِ اسلام کے لئے اپنا تن من دھن قربان کر دیا اور شیوۂ فرمانبرداری کی ایسی مثالیں رقم کیں جو رہتی دنیا تک پڑھی اور سنی جاتی رہیں گی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے شاگردان گرامی کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ۔
وما توفیقی الا باللہ