عشرہ ذوالحجہ کے بعض مسنون اعمال پر تقریر
تمہیدی کلمات
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔
فَاَعُوذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ
وَالْفَجْرِ. وَلَیَالٍ عَشْرٍ"_
وَقَالَ النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
(( مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْکیٰ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ خَیْرٍ یَعْمَلُہُ فِی عَشْرِ الْأضْحیٰ))
برادران اسلام: عشرہ ذوالحجہ (یعنی ماہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن) اس کی کتاب و سنت میں بڑی فضیلت آئی ہے جس کا اندازہ آپ اس آیت کریمہ سے کر سکتے ہیں ۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے: وَالْفَجْرِ. وَلَیَالٍ عَشْرٍ }[الفجر89: 2-] ’’قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔ ‘‘
جمہور مفسرین کے نزدیک دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی رائے کو صحیح کہا ہے۔
اور اﷲتعالیٰ کا ان ایام کی قسم کھانا ہی انکی عظمت اور فضیلت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ عظیم باری تعالیٰ کسی عظمت والی شئے کی قسم ہی کھاتاہے۔ لہٰذا اﷲ کے بندوں کو بھی چاہئے کہ وہ ان ایام میں اعمال صالحہ کے لئے خوب محنت کریں اور ان کی آمد کو اپنے لئے باعث ِ شرف اور نیکی سمجھیں۔
اللہ تعالیٰ کافرمان ہے: {وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ} [العنکبوت29 : 69]
’’ اور جو لوگ ہمارے دین کی خاطر کوشش کرتے ہیں ہم ان کو ضرور بالضرور اپنے راستے دکھا دیں گے اور یقینا اللہ تعالیٰ نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ‘‘
ابو عثمان النہدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ’’اسلاف ِ کرام تین عشروں کی بڑی قدر کیا کرتے تھے ‘ رمضان کا آخری عشرہ اور ذوالحجہ اور محرم کا پہلا عشرہ۔ ‘‘
اﷲ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان ایام میں زیادہ سے زیادہ عبادت کا اہتمام کرنے اور ان سے خوب مستفید ہونے کی توفیق دے۔
محترم حضرات!
ان ایام میں جو جو اعمال مستحب ہیں اور جن کا تمام مسلمانوں کو خصوصی اہتمام کرنا چاہئے وہ یہ ہیں :
1. مناسکِ حج اور عمرہ کی ادائیگی :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
(( الْعُمْرَۃُ إِلَی الْعُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَھُمَا،وَالْحَجُّ الْمَبْرُوْرُ لَیْسَ لَہُ جَزَائٌ إلَّا الْجَنّۃُ)) [متفق علیہ]
’’ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ اپنے درمیان کے (گناہوں )کے لئے کفارہ ہے۔ اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔ ‘‘
2. نفلی روزے رکھنا :
حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
(( مَا ِمنْ عَبْدٍ یَصُوْمُ یَوْمًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إلَّا بَاعَدَ اللّٰہُ بِذٰلِکَ الْیَوْمِ وَجْہَہُ عَنِ النَّارِ سَبْعِیْنَ خَرِیْفًا)) [صحیح البخاری:2840،صحیح مسلم:1153]
’’جو شخص اللہ کی راہ میں ایک روزہ رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال کی مسافت تک دور کردیتا ہے۔‘‘
نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اﷲ عنہن میں سے کسی سے مروی ہے کہ
(کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم یَصُوْمُ تِسْعَ ذِی الْحِجَّۃِ،وَیَوْمَ عَاشُوْرَائَ،وَثَلَاثَۃَ أَیَّامٍ مِنْ کُلِّ شَہْرٍ) [سنن أبی داؤد:2437]
’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذو الحجہ کے پہلے نو دن روزہ رکھتے تھے ، اسی طرح یوم ِ عاشوراء کا اور ہر ماہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔‘‘
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (( صَوْمُ یَوْمِ عَرَفَۃَ أَحْتَسِبُ عَلَی اللّٰہِ أَنْ یُکَفِّرَ السَّنَۃَ الّتِیْ قَبْلَہُ وَالّتِیْ بَعْدَہُ )) [صحیح مسلم:1162]
’’ یومِ عرفہ کے روزہ کے متعلق مجھے اﷲسے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال اور آنے والے ایک سال کے گناہوں کے لئے کفارہ بن جائے گا۔ ‘‘
3. نوافل نماز کا اہتمام کرنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَالَ:مَنْ عَادیٰ لِیْ وَلِیًّا فَقَدْ آذَنْتُہُ بِالْحَرْبِ،وَمَا تَقَرَّبَ إِلَیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبَّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہُ عَلَیْہِ،وَ َما یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلَیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہُ ، فَإِذَا أَحْبَبْتُہُ کُنْتُ سَمْعَہُ الَّذِیْ یَسْمَعُ بِہٖ، وَبَصَرَہُ الَّذِیْ یُبْصِرُ بِہٖ،وَیَدَہُ الَّتِیْ یَبْطِشُ بِہَا،وَرِجْلَہُ الَّتِیْ یَمْشِیْ بِہَا،وَإِنْ سَأَلَنِیْ لَأُعْطِیَنَّہُ وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِیْ لَأُعِیْذَنَّہُ)) [1]
’’ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : جو شخص میرے دوست سے دشمنی کرتا ہے میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوںاور میرا بندہ سب سے زیادہ میرا تقرب اس چیز کے ساتھ حاصل کر سکتا ہے جسے میں نے اس پر فرض کیا ہے ( یعنی فرائض کے ساتھ میرا تقرب حاصل کرنا ہی مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔) اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر لیتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے۔ اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوںجس کے ذریعے وہ پکڑتا ہے۔ اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوںجس کے ذریعے وہ چلتا ہے۔ (یعنی اس کے ان تمام اعضاء کو اپنی اطاعت میں لگا دیتا ہوں ) اور اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے ضرور بالضرور عطا کرتا ہوں۔ اور اگر وہ میری پناہ طلب کرتا ہے تو میں یقینا اسے پناہ دیتا ہوں۔‘
4. اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا چاہئے:
حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ أیَّامٍ أعْظَمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أحَبُّ إلَیْہِ الْعَمَلُ فِیْھِنَّ مِنْ ھَذِہِ الأیَّامِ الْْعَشْرِ ، فَأکْثِرُوْا فِیْھِنَّ مِنَ التَّھْلِیْلِ وَالتَّکْبِیْرِ وَالتَّحْمِیْدِ[رواہ أحمد:323/9و296/10وقال الأرناؤط:صحیح]))
’’اﷲکے نزدیک نہایت عظمت والے اور محبوب دن ایامِ عشرۂ ذی الحجہ کے مقابلے میں کوئی دن نہیں ہیں‘ اس لئے ان ایام میں لاإلہ إلَّا اللّٰه ‘ اللّٰه أکبر اورالحمد اللّٰه جیسے اذکار کثرت سے کیا کرو۔‘‘
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( یَقُوْلُ اللّٰہُ تَعَالٰی: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِیْ بِیْ،وَأَنَا مَعَہُ إِذَا ذَکَرَنِیْ،فَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِیْ، وَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَأٍ ذَکَرْتُہُ فِیْ مَلَأٍ خَیْرٍ مِّنْہُمْ،وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا،وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ بَاعًا،وَإِنْ أَتَانِیْ یَمْشِیْ أَتَیْتُہُ ہَرْوَلَۃً[صحیح البخاری:2675])
’’ اللہ تعالیٰٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں۔ اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ مجھے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ کسی جماعت میں مجھے یاد کرے تو میں اس سے بہتر جماعت میں اسے یاد کرتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک بالشت میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک ہاتھ اس کے نزدیک ہوتا ہوں۔ اور اگر وہ ایک ہاتھ میرے نزدیک ہوتا ہے تو میں ایک کلا (دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے ) اس کے قریب ہوتا ہوں۔ اور اگروہ چلتا ہوا میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔ ‘‘
نیزامام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :(وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُوہُرَیْرَۃَ یَخْرُجَانِ إِلَی السُّوْقِ فِیْ أَیَّامِ الْعَشْرِ،یُکَبِّرَانِ وَیُکَبِّرُ النَّاسُ بِتَکْبِیْرِہِمَا) [صحیح البخاری:العیدین باب فضل العمل فی أیام التشریق]
’’حضرت ابن ِ عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ( ماہِ ذو الحجہ کے ) ان دس دنوں میں بازار کونکل جاتے اور تکبیر کہتے رہتے۔ پھردوسرے لوگ بھی انکی تکبیر سن کر تکبیرات پڑھتے۔‘‘
تکبیرات کے الفاظ یہ ہیں :
(اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ،لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ ، وَاللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ،وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ)"[إرواء الغلیل:125/3]
5. اﷲنے صدقہ کا تاکیدی حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے :
{ یَآأَیُّھَا الَّذِّیْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ أَنْ یَّأْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلَا خُلَّۃٌ وَّلَا شَفَاعَۃٌ وَالْکَافِرُوْنَ ھُمُ الظَّلِمُوْنَ}[3]
’’ اے ایمان والو !جو ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہو اس سے پہلے کہ وہ دن آئے جس میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت۔ اور کافر ہی ظالم ہیں۔‘‘
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :(( مَانَقَصَتْ صَدَقَۃٌ مِنْ مَالٍ)) [رواہ مسلم]
’’ کسی مال کا صدقہ نکالنا اس مال کو گھٹاتا نہیں ۔ ‘‘
لہٰذا ہمیں خصوصا ان ایام میں زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کرنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عشرہ ذوالحجہ میں ان تمام اعمال کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وما علینا إلا البلاغ المبين ۔
والسلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ