عشرہ ذوالحجہ کی اہمیت و فضیلت
تمہیدی کلمات :
برادرانِ اسلام !
اللہ تعالیٰ نے چونکہ ہر انسان کو اپنی عبادت کیلئے ہی پیدا کیا ہے اس لئے اسے چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اس کی منشا کے مطابق گذارے اور اس کی عبادت کے ذریعے اس کے تقرب کیلئے کوشاں رہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے بعض حسین مواقع ایسے بھی عطا کئے ہیں کہ جن میں انسانوں کو اس کی عبادت کیلئے کمر بستہ ہو جانا چاہئے اور مختلف ومتنوع اعمال صالحہ میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
ان مبارک مواقع میں سے ایک موقعہ عشرۂ ذو الحجہ کا ہے۔ جس کی کتاب و سنت میں بڑی فضیلت آئی ہے_
تقریر کا آغاز :
عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل:
(01) اللہ تعالیٰ نے ان ایام کی قسم کھائی ہے:
ﷲ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے :{وَالْفَجْرِ. وَلَیَالٍ عَشْرٍ }[الفجر89: 2-1]
’’کہ قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی۔ ‘‘
جمہور مفسرین کے نزدیک دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اپنی تفسیر میں اسی رائے کو صحیح کہا ہے۔
چنانچہ ﷲتعالیٰ کا ان ایام کی قسم کھانا ہی انکی عظمت اور فضیلت کی سب سے بڑی دلیل ہے کیونکہ عظیم باری تعالیٰ کسی عظمت والی شئے کی ہی قسم کھاتاہے۔
(02) حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے:
إرشاد ربانی ہے: اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوۡرِ عِنۡدَ اللّٰہِ اثۡنَا عَشَرَ شَہۡرًا فِیۡ کِتٰبِ اللّٰہِ یَوۡمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ مِنۡہَاۤ اَرۡبَعَۃٌ حُرُمٌ ؕ ذٰلِکَ الدِّیۡنُ الۡقَیِّمُ ۬ ۙ فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ (التوبۃ:36)
مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت و ادب کے ہیں یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔
اسکی تفصیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمائی ہے ۔
إِنَّ الزَّمَانَ قَدِ اسْتَدَارَ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ ، السَّنَةُ : اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ، ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ : ذُو الْقَعْدَةِ ، وَذُو الْحِجَّةِ ، وَالْمُحَرَّمُ ، وَرَجَبُ ، مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ(صحیح البخاری:4662) حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجۃ الوداع کے خطبے میں ) فرمایا کہ دیکھو زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آ گیا ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذی قعدہ، ذی الحجۃ اور محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس مہینے (حرمت والے) میں خاص طور پر گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ آگے اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان :فَلَا تَظۡلِمُوۡا فِیۡہِنَّ اَنۡفُسَکُمۡ ) اس کی واضح دلیل ہے ۔
03. دین اسلام کی تکمیل اور اتمام نعمت کا اعلان:
جی ہاں تکمیل دین کا اعلان بھی اسی عشرہ ذوالحجہ میں ہوا، تکمیل دین وہ گراں قدر عطیہ ہے جس سے اہل اسلام کی تکمیل ہوتی ہے، ان کے اخلاق و کردار اجرو ثواب کی تکمیل ہوتی ہے، حیات کاملہ نصیب ہوتی ہے، ایمان اور اہل ایمان کو طاقت وقوت ملتی ہے، جس پر اہل اسلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے ۔
جیسا کہ ایک یہودی ( کعب احبار اسلام لانے سے پہلے ) نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ لَوْ أَنَّ عَلَيْنَا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ: {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا} لاَتَّخَذْنَا ذَلِكَ الْيَوْمَ عِيدًا. فَقَالَ عُمَرُ إِنِّي لأَعْلَمُ أَيَّ يَوْمٍ نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ، نَزَلَتْ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ.
اے امیرالمؤمنین! اگر ہمارے یہاں سورۃ المائدہ کی یہ آیت نازل ہوتی «اليوم أكملت لكم دينكم وأتممت عليكم نعمتي ورضيت لكم الإسلام دينا» کہ ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔“ تو ہم اس دن کو عید ( خوشی ) کا دن بنا لیتے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت کس دن نازل ہوئی تھی، عرفہ کے دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن تھا۔(صحیح البخاری:7268)
(04) دنیا کے تمام ایام میں یہ ایام افضل ہیں:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (( أَفْضَلُ أَیَّامِ الدُّنْیَا أَیّامُ الْعَشْرِ یَعْنِیْ عَشْرَ ذِیْ الْحِجَّۃِ،قِیْلَ:وَلَا مِثْلُھُنَّ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰه ؟قَالَ وَلَا مِثْلُھُنَّ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِلَّا رَجُلٌ عَفَّرَ وَجْھَہُ فِی التُّرَابِ[رواہ البزار وابن حبان وصححہ الألبانی فی صحیح الترغیب والترہیب:1150)’ دنیا کے سارے ایام کے مقابلے میں دس ایام (یعنی عشرۂ ذوالحجہ ) سب سے زیادہ افضل ہیں۔ آپ سے استفسار کیا گیا کہ اگر اتنے ہی دن جہاد فی سبیل اﷲ میں گذارے جائیں تو وہ بھی ان کے برابر نہیں ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا : جہاد فی سبیل اﷲ میں گذارے ہوئے دن بھی ان جیسے نہیں سوائے اس شخص کے کہ جوشہید ہوجائے۔
(05) جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ محبوب اعمال:
جیسا کہ حضرت عبد اﷲبن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(( مَا مِنْ أَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھَا أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ مِنْ ھَذِہِ الأیَّامِ یَعْنِیْ أَیَّامَ الْعَشْرِ،قَالُوْا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ؟ قَالَ:وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِہِ وَمَالِہِ،ثُمَّ لَمْ یَرْجِعْ مِنْ ذَلِکَ بِشَیْئٍ[رواہ أحمد۔ واللفظ لہ۔ والبخاری بمعناہ :969])
’’عمل ِ صالح کے لئے یہ ایام (یعنی ماہِ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن) اﷲ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا :یا رسول اﷲ ! کیا اﷲکے راستے میں جہاد کرنا بھی (اتنامحبوب)نہیں ؟ آپ نے فرمایا :اﷲکے راستے میں جہاد کرنا بھی اتنا محبوب نہیں‘ سوائے اس کے کہ انسان اپنی جان ومال کے ساتھ نکلے اور پھر کسی بھی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے۔ ‘‘ یعنی مال بھی اللہ کے راستے میں خرچ کر ڈالے اور خود بھی شہید ہوجائے ، تو یقینا اِس کا عمل زیادہ محبوب ہو گا ورنہ اِس کو چھوڑ کر باقی تمام اعمال اللہ تعالیٰ کو اِن ایام میں زیادہ محبوب ہوتے ہیں۔
(06) سب سے پاکیزہ اور سب سے زیادہ اجر والا ہے عمل:
جیسا کہ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یوں ہے : (( مَا مِنْ عَمَلٍ أَزْکیٰ عِنْدَ اللّٰہِ وَلَا أَعْظَمُ أَجْرًا مِنْ خَیْرٍ یَعْمَلُہُ فِی عَشْرِ الْأضْحیٰ(صحیح الترغیب والترہیب للألبانی:1148)
’’ کہ وہ خیر کا عمل جو قربانی کے عشرہ میں کیا جائے ، اللہ تعالیٰ کے ہاں اُس سے زیادہ پاکیزہ اور اُس سے زیادہ اجر والا عمل کوئی نہیں۔پوچھا گیا : جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ، سوائے اُس شخص کے جو اپنی جان اور مال کے ساتھ نکلے ، پھر مال بھی قربان کردے اور اپنی جان بھی۔
راویٔ حدیث کہتے ہیں کہ اِس حدیث کی بناء پر سعید بن جبیر رحمہ اللہ جب عشرۂ ذو الحجہ شروع ہوتا تو عبادات میں اتنی محنت کرتے کہ اُن جیسی عبادت کرنا دوسروں کیلئے مشکل ہو جاتا۔ لہذا ہمیں بھی سلف صالحین رحمہ اللہ کے اسی طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے اِس عشرہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے۔ کیونکہ کسی عمل خیر پر اُس کے کرنے والے کو جو اجر وثواب اللہ تعالیٰ اِس عشرہ میں عطا کرتا ہے وہ اِس حدیث کے مطابق کسی اورعشرہ میں عطا نہیں کرتا۔
(07) انہی ایام میں یومِ عرفہ بھی ہے:
جی ہاں ، یومِ عرفہ جوحج کا اصل دن ہے اوراسی میں حج کا سب سے بڑا رکن ( وقوفِ عرفہ) ادا کیا جاتا ہے وہ بھی انہی دنوں میں آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : الْحَجُّ عَرَفَةُ (الترمذی:889) کہ حج عرفات میں ٹھہرنا ہے_ اور یہی وہ عظیم دن کہ جس میں اللہ تعالیٰ اہلِ عرفات کیلئے عام مغفرت کا اعلان کرتا ہے اور اس میں سب سے زیادہ اپنے بندوں کو جہنم سے آزادی عطا کرتا ہے۔
جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے : مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ، مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمِ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟(صحیح المسلم: 1348) کہ بلاشبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کوئی دن نہیں جس میں اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن سے بڑھ کر بندوں کو آگ سے آزاد فرماتا ہو ، وہ ( اپنے بندوں کے ) قریب ہوتا ہے، اور فرشتوں کے سامنے ان لوگوں کی بناء پر فخر کرتا ہے اور پوچھتا ہے : یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟
اِس بناء پر اگر ایامِ عشرۂ ذوالحجہ میں سے کسی دن کو کوئی فضیلت نہ ہوتی تو صرف یومِ عرفہ ہی ان سارے ایام کی فضیلت کے لئے کافی ہوتا۔
(08) انہی ایام میں یومِ نحر بھی ہے:
بعض علماء کے نزدیک یومِ نحر (قربانی کا دن ) سال کے تمام دنوں سے افضل ہے۔
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
(( أَعْظَمُ الأَ یَّامِ عِنْدَ ا یَوْمُ النَّحْرِ وَ یَوْمُ القَرِّ[سنن أبی داؤد والنسائی۔وصححہ الألبانی]))
’’اﷲکے نزدیک سب سے زیادہ باوقار اور عظمت والا دن یومِ نحر (یعنی دس ذو الحجہ کادن ) ہے۔ پھر اس کے بعد (منیٰ میں ) ٹھہرنے کا دن (یعنی گیارہ ذو الحجہ )ہے ۔
(09) عبادات کا اجتماع:
(یعنی) ان ایام میں متعدد اہم ترین عبادتیں جمع ہوتی ہیں، علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں یہ نکتہ بیان کرتے ہیں کہ (وَالَّذِی یَظْہَرُ أَنَّ السَّبَبَ فِی امْتِیَازِ عَشْرِ ذِی الْحِجَّۃِ لِمَکَانِ اجْتِمَاعِ أُمَّہَاتِ الْعِبَادَۃِ فِیْہِ وَہِیَ الصَّلَاۃُ وَالصِّیَامُ وَالصَّدَقَۃُ وَالْحَجُّ،وَلَا یَتَأَتّٰی ذَلِکَ فِی غَیْرِہ) [فتح الباری:460/2]
’’ کہ عشرۂ ذوالحجہ کی امتیازی فضیلت کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ساری اہم ترین عبادتیں اس عشرہ میں جمع ہو جاتی ہیں اور وہ ہیں : نماز ،روزہ، صدقہ اور حج ۔ اِس کے علاوہ دیگر مناسبتوں میں یہ ساری عبادتیں اس طرح جمع نہیں ہوتی ہیں۔
وما علینا الا البلاغ المبین
نوٹ 📔 : اس خطبہ کا دوسرا حصہ بنام (عشرۂ ذی الحجہ کے مسنون اعمال) بھی ملاحظہ فرمالیں ۔
شکریہ