سال نو کا آغاز اور احتساب نفس
نَحْمَدُہُ وَ نُصَلّیِ عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمْ اَمّا بَعْدْ۔
فَاَعُوذُ بِاللہِ السمیع العلیم مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ
بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمْ ؕ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ"_
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا ثُمَّ تَمَنَّى عَلَى اللَّهِ"(رواہ الترمذی)
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سُراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن....
برادران اسلام: دنیا کے اندر جتنی بڑی بڑی کمپنیاں ہیں تقریباً تمام کمپنیاں سال کے اختتام پر اپنا حساب و کتاب کرتی ہیں، نفع اور نقصان کا جائزہ لیتی ہیں، بلکہ اگر میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ ایک بنیا بھی جب شام کو اپنی دکان بند کرتا ہے تو ایک مرتبہ پورے دکان کا محاسبہ ضرور کرتا ہے پھر مستقبل میں کسی بھی طرح کے نقصان سے اپنے کاروبار کو بچانے کےلئے طرح طرح کی تدابیر اختیار کرتا ہے، تاکہ وہ ہر قسم کے خسارے سے اپنی تجارت کو محفوظ رکھ سکے، بندہ مؤمن کی فکر بھی ایک تاجر کی طرح ہونی چاہیے، ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیئے کہ اس نے گزشتہ سال میں کیا کھویا اور کیا پایا، اپنے نامہ عمال میں کتنی نیکیاں جمع کی اور کتنے برائیاں؟ پھر اس کے مطابق وہ آئندہ سال کا خاکہ تیار کرے اور اس کی تیاری میں مصروف ہوجائے ۔
احتساب نفس کی ہدایت:
برادرانِ اسلام: محاسبہ اعمال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ"(الحشر – 18) اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص کو یہ دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے، اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی تمہارے عملوں کے بارے میں خبر رکھنے والا ہے۔
اسی طرح نبی اکرم نے فرمایا: الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ " (ترمذی:2469)
کہ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے اور رحمت الٰہی کی آرزو رکھے“۔
اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا،کہ اپنے نفس کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے،(ترمذی:2469)
لہذا ہم سب کو اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہوئے اپنے آنے والے کل کی تیاری کرنا چاہیئے" ۔
سال کا آنا جانا اللہ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے:
برادران اسلام:سال کا آنا جانا اللہ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے جو ہمیں موت کی یاد دلاتا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ"(آل عمران:190)
آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر میں یقیناً عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ۔
سورج کا نکلنا ڈوبنا، دن کا آنا رات کا جانا، ماہ و سال کی گردشیں یہ سب ہمیں موت کی یاد دلاتی ہیں کہ ہر شئ پر زوال کا آنا یقینی ہے،
ارشاد باری تعالیٰ ہے: کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَافَانٍ" (الرَّحْمٰنِ:26)
کہ زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: کُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَۃُ الۡمَوۡتِ ؕ(آل عمران:185)" کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے"۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَكْثِرُوا ذِكْرَ هَاذِمِ اللَّذَّاتِ، يَعْنِي الْمَوْتَ (ترمذی:2307)
کہ ”لذتوں کو توڑنے والی ( یعنی موت ) کو کثرت سے یاد کیا کرو“۔
لہذا ہمیں اس موقع پر موت کو بھی یاد کرنا چاہئے کہ جو کچھ بھی دنیا میں موجود ہے سب کو ایک نہ ایک دن ختم ہوجانا ہے، فنا کے گھاٹ اترجانا ہے، بقا اور دوام کسی کیلئے نہیں ہے ۔
ایک اور اینٹ گر گئی دیوار حیات سے:
برادران اسلام: یہ زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی دی ہوئی ایک عظیم نعمت ہے اس کی ہمیں قدر کرنی چاہیے: ارشاد باری تعالیٰ ہے: الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ"(الملک:2)
(وہی اللہ ہے) جس نے موت اور حیات کو اس لئے پیدا کیا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اچھے کام کون کرتا ہے ، اور وہ غالب ( اور ) بخشنے والا ہے ۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: وَ ہُمۡ یَصۡطَرِخُوۡنَ فِیۡہَا ۚ رَبَّنَاۤ اَخۡرِجۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًا غَیۡرَ الَّذِیۡ کُنَّا نَعۡمَلُ ؕ اَوَ لَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ مَنۡ تَذَکَّرَ وَ جَآءَکُمُ النَّذِیۡرُ ؕ فَذُوۡقُوۡا فَمَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ نَّصِیۡرٍ "(فاطر:37)
اور وہ لوگ(جہنمی) اس میں (جہنم میں) چلائیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو نکال لے ہم اچھے کام کریں گے برخلاف ان کاموں کے جو کیا کرتے تھے ( اللہ کہے گا ) کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی جس کو سمجھنا ہوتا وہ سمجھ سکتا اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی پہنچا تھا سو مزہ چکھو کہ ( ایسے ) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: شَبَابَكَ قَبْلَ هَرَمِكَ وَصِحَّتَكَ قَبْلَ سَقَمِكَ وَغِنَاكَ قَبْلَ فَقْرِكَ وَفَرَاغَكَ قَبْلَ شُغْلِكَ وَحَيَاتَكَ قَبْلَ مَوْتِكَ"(ترمذی:2333)
’’ کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو ، اپنی جوانی کو اپنے بڑھاپے سے پہلے ، اپنی صحت کو اپنے مرض سے پہلے ، اپنے مال دار ہونے کو اپنی محتاجی سے پہلے ، اپنی فراغت کو اپنی مصروفیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو اپنی موت سے پہلے ۔‘‘
لہذا ہمیں نئے سال کی مبارکباد دینے کے بجائے اپنے گزشتہ سال کا محاسبہ کرنا چاہیے اور اپنی موت کو یاد کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے جتنی بھی عمر مقرر رکھی تھی اس میں سے ایک سال اور کم ہوگیا "۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا محاسبہٴ نفس:
پہلا واقعہ:
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا :حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاوٴ جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم:6966)
دوسرا واقعہ:
(مشہور صحابی رسول) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کر لیا ۔ ان کا بیٹا کہنے لگا : ابا جان ! کیا رسول اللہ ﷺ نے آپ کو فلاں چیز کی بشارت نہ دی تھی ؟ کیا فلاں بات کی بشارت نہ دی تھی ؟ انہوں نے ہماری طرف رخ کیا اور کہا : جو کچھ ہم ( آیندہ کے لیے ) تیار کرتے ہیں ، یقیناً اس میں سے بہترین یہ گواہی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں ۔ میں تین درجوں ( مرحلوں ) میں رہا ( پہلا یہ کہ ) میں نے اپنے آپ کو اس حالت میں پایا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مجھ سے زیادہ بغض کسی کو نہ تھا اور نہ اس کی نسبت کوئی اور بات زیادہ پسند تھی کہ میں آپ پر قابو پا کر آپ کو قتل کر دوں ۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقیناً دوزخی ہوتا ۔ ( دوسرے مرحلے میں ) جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی تو میں نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی : اپنا دایاں ہاتھ بڑھایئے تاکہ میں آپ کی بیعت کروں ، آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا ، کہا : تو میں نے اپنا ہاتھ ( پیچھے ) کھینچ لیا ۔ آپ نے فرمایا :’’ عمرو ! تمہیں کیا ہوا ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کی : میں ایک شرط رکھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا :’’ کیا شرط رکھنا چاہتے ہو ؟ ‘‘ میں نے عرض کی : یہ ( شرط ) کہ مجھے معافی مل جائے ۔ آپ نے فرمایا :’’ عمرو ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے ؟ اور ہجرت ان تمام گناہوں کو ساقط کر دیتی ہے جو اس ( ہجرت ) سے پہلے کیے گئے تھے اور حج ان سب گناہوں کو ساقط کر دیتا ہے جو اس سے پہلے کے تھے ۔‘‘ اس وقت مجھے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ محبوب کوئی نہ تھا اور نہ آپ سے بڑھ کر میری نظر میں کسی کی عظمت تھی ، میں آپ کی عظمت کی بنا پر آنکھ بھر کر آپ کو دیکھ بھی نہ سکتا تھا اور اگر مجھ سے آپ کا حلیہ پوچھا جائے تو میں بتا نہ سکوں گا کیونکہ میں آپ کو آنکھ بھر کر دیکھتا ہی نہ تھا اور اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا ، پھر ( تیسرا مرحلہ یہ آیا کہ ) ہم نے کچھ چیزوں کی ذمہ داری لے لی ، میں نہیں جانتا ان میں میرا حال کیسا رہا ؟ جب میں مر جاؤں تو کوئی نوحہ کرنے والی میرے ساتھ نہ جائے ، نہ ہی آگ ساتھ ہو اور جب تم مجھے دفن کر چکو تو مجھ پر آہستہ آہستہ مٹی ڈالنا ، پھر میری قبر کے گرد اتنی دیر ( دعا کرتے ہوئے ) ٹھہرنا ، جتنی دیر میں اونٹ ذبح کر کے اس کا گوشت تقسیم کیا جا سکتا ہے تاکہ میں تمہاری وجہ سے ( اپنی نئی منزل کے ساتھ ) مانوس ہو جاؤں اور دیکھ لوں کہ میں اپنے رب کے فرستادوں کو کیا جواب دیتا ہوں ۔(صحیح مسلم:321)
تیسرا واقعہ:
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں وہ کچھ دیکھتا ہوں جو تمہیں نظر نہیں آتا ، اور میں وہ کچھ سنتا ہوں جو تمہیں سنائی نہیں دیتا ۔ آسمان چرچراتا ہے اور اس کا حق ہے کہ چرچرائے ۔ اس میں چار انگلیوں کی جگہ بھی خالی نہیں مگر ( بلکہ ہر جگہ ) کوئی نہ کوئی فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ کو سجدہ کر رہا ہے ۔ قسم ہے اللہ کی ! اگر تمہیں وہ کچھ معلوم ہو جائے جو مجھے معلوم ہے تو تم تھوڑا ہنسو اور زیادہ روؤ اور بستروں پر عورتوں سے لطف اندوز نہ ہو سکو اور تم باآواز بلند اللہ سے فریاد کرتے ہوئے میدانوں میں نکل جاؤ ۔‘‘(حضرت ابوذر کہتے ہیں) قسم ہے اللہ کی ! میرا جی چاہتا ہے ( کاش ! ) میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا ۔ (ترمذی:4190)
چوتھا واقعہ:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے جہنم کا ذکر کیا اور رونے لگیں ‘ تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا :’’ تجھے کس چیز نے رلایا ہے ؟‘‘ کہنے لگیں : مجھے جہنم یاد آئی ہے تو رونے لگی ہوں ۔ تو کیا بھلا آپ قیامت کے روز اپنے گھر والوں کو یاد رکھیں گے ؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین مقامات ایسے ہیں جہاں کوئی کسی کو یاد نہیں کرے گا : ترازو کے پاس حتیٰ کہ اسے پتا چل جائے کہ اس کا تول ہلکا ہوا یا بھاری ‘ نامہ اعمال ملنے کے وقت ‘ جب کہا جائے گا ( هاؤم اقرءوا كتابيه ) ’’ آؤ میرا نامہ اعمال پڑھو ۔‘‘ حتیٰ کہ جان لے کہ اس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں آتا ہے یا بائیں میں یا کمر کے پیچھے سے ‘ اور ( تیسرا مقام ) پل صراط ہے جب اسے جہنم پر عین وسط میں ٹکایا جائے گا ۔(أبوداؤد:4755)
پانچواں واقعہ:
ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر بیٹھا، اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے دو غلام ہیں، جو مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں، میرے مال میں خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں، میں انہیں گالیاں دیتا ہوں مارتا ہوں، میرا ان کا نپٹارا کیسے ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”انہوں نے، تمہارے ساتھ خیانت کی ہے، اور تمہاری نافرمانی کی ہے تم سے جو جھوٹ بولے ہیں ان سب کا شمار و حساب ہو گا تم نے انہیں جو سزائیں دی ہیں ان کا بھی شمار و حساب ہو گا، اب اگر تمہاری سزائیں ان کے گناہوں کے بقدر ہوئیں تو تم اور وہ برابر سرابر چھوٹ جاؤ گے، نہ تمہارا حق ان پر رہے گا اور نہ ان کا حق تم پر، اور اگر تمہاری سزا ان کے قصور سے کم ہوئی تو تمہارا فضل و احسان ہو گا، اور اگر تمہاری سزا ان کے گناہوں سے زیادہ ہوئی تو تجھ سے ان کے ساتھ زیادتی کا بدلہ لیا جائے گا، ( یہ سن کر ) وہ شخص روتا پیٹتا ہوا واپس ہوا، آپ نے فرمایا: ”کیا تم کتاب اللہ نہیں پڑھتے ( اللہ نے فرمایا ہے ) ونضع الموازين القسط ليوم القيامة فلا تظلم نفس شيئا وإن كان مثقال الآية ”اور ہم قیامت کے دن انصاف کا ترازو لگائیں گے پھر کسی نفس پر کسی طرح سے ظلم نہ ہو گا، اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہو گا ہم اسے لا کر حاضر کریں گے اور ہم کافی ہیں حساب کرنے والے“ ( الانبیاء: ۴۷ ) ، اس شخص نے کہا: قسم اللہ کی! میں اپنے اور ان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں پاتا کہ ہم ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں، میں آپ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ وہ سب آزاد ہیں۔ (ترمذی:3165)
وما علینا إلا البلاغ المبين