بچوں کی تقریر بعنوان جہیز اور ہمارا معاشرہ
جہیز اور ہمارا معاشرہ
السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
الحمد لله وكفى وسلام على عباده الذين اصطفى أما بعد: فقد قال الـنبـي صـلـى الـلـه عليه وسلم: من تزوج إمرءة لعزها لم يزد الله إلا ذلا ومن تزوجها لمالها لم يزد الله إلا فقرا إلى آخره او كما قال عليه الصلوة والسلام.
بیٹے کا جنم ہو تو، یہ کہتے ہیں فخر سے
ایک لاکھ کا ٹکٹ ہے یہ بچہ جہیز کا -
صدرمحترم اور گرامی قدر سامعین کرام! اس وقت میرا موضوع سخن ہمارے معاشرے کا وہ ناسور ہے، جس نے زندگی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،سیکڑوں ہزاروں گھروں کو تباہ و برباد کر دیا ہے، اور کتنے ہی جذبات کو مسل کر رکھ دیا ہے۔ یہ وہ بیماری ہے جسے آپ جہیز کے نام سے یاد کرتے ہیں ، میں نے خطبہ مسنونہ کے بعد ایک حدیث شریف پڑھی ہے، اس میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے کہ جو شخص عزت حاصل کرنے کے لئے شادی کرے گا ، تو رب ذوالجلال ایسے شخص کو ذلت کے سوا کچھ نہ دیں گے اور جو شخص مال کے لالچ میں شادی کرے گا تو اس کو فقر وفاقہ اور تنگ دستی کے سوا کچھ نصیب نہ ہوگا۔
اسلام کے پاسبانو! آج ہندوستان کے اندر اور خاص طور سے ہمارے معاشرے میں جہیز ایک ایسا ناسور بن گیا ہے، جو ایٹمی ہتھیار سے زیادہ خطرناک اور مہلک ثابت ہوتا جارہاہے، اس منحوس جہیز کی بنیاد پر ہندوستانی معاشرے میں روز مرہ اخبارات کی رونق زار بن کر یہ سرخیاں چھپتی ہیں کہ فلاں شوہر نے اپنی سرال والوں سے اسکوٹر نہ ملنے پر اپنی نی نویلی دلہن کو جلا دیا، فلاں شخص نے مزید جہیز کا مطالبہ پورا نہ کرنے پر بیوی کوموت کے گھاٹ اتار دیا۔
عجب ماجرا ہے حضرات دیکھئے
داماد مانگتا ہے، خیرات دیکھئے -
پیارے دوستو! اخبارات کی یہ سرخیاں ابھی غیر قوموں ہی کے بارے میں نظر آتی تھیں مگر افسوس صد افسوس کہ رفتہ رفتہ ہمارے اسلامی معاشرے کے اندر بھی یہ وبا پھیل چکی ہے آج اخبارات کے اندر جہیز کے لئے بھینٹ چڑھنے والی کہیں فاطمہ کہیں رضیہ، تو کہیں شبنم و فرزانہ اسلامی شریعت کے نام لیواؤں سے یہ پکار پکار کر کہ رہی ہیں کہ کاش ہماری اسلامی شریعت کتابوں اور وعظوں کے بجاۓ عمل میں آجاتی ۔
پیارے دوستو اور اسلام کے نوجوانو!
عورت رب ذوالجلال کی جانب سے عطا کردہ وہ حسین تحفہ ہے ،جس نے انسانی زندگی کو رعنائی بخشی ، اسی عورت کے دم سے نظاروں میں خوبصورتی پیدا ہوئی، اس معصوم کلی نے حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی سے خوف و وحشت کو دور کیا ، مگر ان تمام باتوں کے باوجو ظلم وستم کی تاریخ شاہد ہے کہ اس دار فانی میں جتنے مظالم بر پا ہوۓ ہیں ان میں زیادہ تر صنف نازک ہی پر کئے گئے ہیں ، اس بے رحم سماج نے عورت کو جس نظر سے دیکھا ہے وہ نہایت ہی قابل مذمت ہے، تاریخ عالم ان دردناک واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کبھی حضرت مریم علیہا السلام کو دنیاوالوں نے متہم کر کے جنگلوں کی خاک چھانے پر مجبور کیا تو کبھی نمرود نے اپنی بیٹی کو ایمان لانے کی پاداش میں آگ میں ڈالا تو کبھی عرب کے جاہل معاشرے نے لڑکیوں کی پیدائش کو اس قدرمنحوس تصور کیا کہ ان کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا۔
محترم حضرات!
آج بھی ان معصوم دوشیزاؤں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جبر و تشدد کی خار دار جھاڑیاں ان کی راہ میں حائل ہیں، آج بھی ان عورتوں کے ارمانوں کا خون کیا جار ہا ہے، غریب گھرانے کی بچیوں پر خدا کی زمین اپنی وسعت اور کشادگی کے باوجود تنگ ہورہی ہے ، ساری دنیا پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ جس گھر میں لڑکی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے، اسی وقت سے والدین کی نیندیں حرام ہو جاتی ہیں، زندگی کا ہرلمحہ سانپ بن کر ڈسنے لگتا ہے۔ ایک طرف لڑکی کی اٹھتی ہوئی جوانی ہوتی ہے تو دوسری طرف جنسی بھیڑیوں کی اٹھتی ہوئی نگاہیں ہوتی ہیں ، تو تیسری طرف پڑوسیوں کی چہ می گوئیاں ہوتی ہیں ، والدین اس گلاب کے پھولوں کو سجانے کے لئے جب کسی گل دان (لڑ کے ) کی تلاش کرتے ہیں ، تو جہیز کے مطالبات ان کے ارادوں کو وہیں مسمار کر دیتے ہیں ۔
ارے جینز کے ٹھیکیدارو!
کان کھول کر سن لو ! ذرا دیکھو! سید الانبیاء ،تاجدار بطحا، احمد مجتبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا عقد مسنون کس انداز سے ہوتا ہے کہ جسم پر جو چادر ہے ، اس میں سولہ پیوند لگے ہوۓ ہیں، اور بنت رسول اللہ ہونے کے باوجود پیادہ پا شیر خدا حیدر کرار علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے گھر کی جانب روانہ ہورہی ہیں ، اور جہیز میں ایک بستر ، ایک چکی اور ایک تکیہ دو مٹکے پر مشتمل مختصر سا سامان سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو پیش کیا جا رہا ہے۔
لیکن آج ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا ڈاکٹر ہے، ہمارا بیٹا انجینئیر ہے، ہمارا بیٹا پائلیٹ ہے، ہمارا بیٹا گریجویٹ ہے، ہمارا بیٹا ٹیلی فون آپر یٹر ہے، ہمارا بیٹا سعودی عرب میں رہتا ہے ، اسلئے جہیز میں جہاز چاہئے ۔ ارے اولاد پیدا کر کے جہیز کی تمنا کرنے والو! کان کھول کر سن لو! اگر تمہارا بیٹا ڈاکٹر ہے تو حضرت علی امیرالمونین تھے، اگر تمہارا بیٹا انجینئیر ہے تو حضرت علی مجاہد تھے، اگر تمہارا بیٹا پائلیٹ ہے تو حضرت علی خلیفہ رسول تھے، اگر تمہارا بیٹا ٹیلی فون آپر یٹر ہے تو حضرت علی فاتح خیبر تھے۔ اگر تمہارا بیٹا گریجویٹ ہے تو حضرت علی اسداللہ الجبار تھے، اگر تمہارا بیٹا پیکر سیاست ہے تو حضرت علی پیکر ولایت تھے۔
حضرات! آیئے ہم سب مل کر اس بات کا عہد کریں کہ اس جہیز جیسی ملعون رسم کو دنیا سے مٹا کر ہی دم لیں گے۔
یہ سنگ گراں جو حائل ہے
رستے سے ہٹا کر دم لیں گے
ہم پھول بھی ہیں تلوار بھی ہیں
باطل کو مٹاکر دم لیں گے ۔
وماعلينا الا البلاغ
السلام عليكم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ